twitter
    For Quick Alerts
    ALLOW NOTIFICATIONS  
    For Daily Alerts

    ہنسی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

    By Staff
    |
    ہنسی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا

    احمد رضا

    بی بی سی اردو ڈاٹ کام، کراچی

    چھبیس نومبر 2008ء کو بھارت کے کاروباری مرکز ممبئی پر ہوئے دہشتگرد حملوں نے جہاں دونوں پڑوسی ملکوں کے باہمی اعتماد کو مجروح کیا وہیں بھارتی میڈیا پر قہقہے بکھیرنے والے پاکستان کے مزاحیہ فنکاروں کو بھی وطن واپسی پر مجبور کر دیا۔ ان مزاحیہ فنکاروں میں شکیل صدیقی، سکندر صنم، ولی شیخ اور ایاز سومرو کے ساتھ پچھلے دنوں کراچی کے نیوی کلب آڈیٹوریم میں کچھ وقت گزارنے کا موقع ملا اور اس دوران ان سے کھل کر بات چیت ہوئی۔

    یہ فنکار آج کل پاکستانی ٹی وی چینلز اور کراچی اسٹیج کو رونق بخش رہے ہیں لیکن بھارت سے جڑی ان کی یادیں اب بھی تازہ ہیں۔ گفتگو کے دوران یہ سب فنکار اپنے اس کام کو جاری رکھنے کے لیے پرعزم نظر آئے جس کی دونوں ملکوں کے لوگوں کو سب سے زیادہ ضرورت ہے۔ یعنی محبت اور خوشیاں مہکانا۔

    بھارتی ٹی وی چینلز پر اپنے کام کا تذکرہ کرتے شکیل صدیقی نے بتایا کہ ان کا یہ تجربہ بہت اچھا رہا۔ ’عزت بہت ملی وہاں، بہت زیادہ شہرت بھی ملی، پیسہ بھی ملا ہر چیز ملی۔ سلسلہ اب منقطع ہوگیا ہے لیکن میرا ماننا یہ ہے کہ جب اچھے دن نہیں رہتے تو برے بھی نہیں رہتے تو انشاء اللہ۔ دیکھیں یہ ملکوں کو سوچنا ہے کیونکہ دونوں ہی ملک دہشتگردی کا شکار ہیں‘۔

    انہوں نے مزید کہا کہ پاکستان بھی آج اتنا ہی مظلوم ہے جتنا بھارت ہے بلکہ ان کے خیال میں پاکستان دہشتگردی کا زیادہ شکار ہے۔ شکیل کا کہنا تھا کہ دونوں پڑوسی ملکوں کے سیاستدانوں کو بیٹھ کر بات چیت کرنی چاہیے اور اس مسئلے کا حل نکالنا چاہیے ورنہ دونوں کو نقصان ہوگا۔

    یہ پاکستانی فنکار بھارتی ٹی وی چینلز کے سٹینڈ اپ کامیڈی پروگراموں میں وہاں کے مزاحیہ فنکاروں سے مقابلہ کرنے گئے تھے لیکن رفتہ رفتہ اپنے منفرد انداز اور طنزیہ اور مزیدار گفتگو سے یہ ان پروگراموں کی جان بن گئے تھے اور ان کے بغیر یہ پروگرام آج بھی ادھورے تصور کیے جاتے ہیں۔بھارتی میڈیا کی بدولت ان فنکاروں کو جہاں ٹی وی اسکرین کی ذریعے بھارت اور پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے ان لوگوں تک رسائی حاصل ہوئی جو اردو یا ہندی سمجھتے ہیں۔ کراچی کے ان فنکاروں کے لیے یہ یقیناً ایک بالکل مختلف تجربہ تھا۔

    اس بارے میں بات کرتے ہوئے سکندر صنم کا کہنا تھا کہ ’تجربہ تو ماشاء اللہ بہت اچھا رہا وہاں کام کرنے کا اور ریسپانس بھی بہت اچھا ملا، وہاں کی آڈیئنس نے ہمیں بہت پیار دیا۔ باقی یہ جو دہشتگردی کا واقعہ ہوا تو میں یہ کہوں گا کہ عوام تو ہمیں چاہتی ہے انڈیا کی بھی پاکستان کی بھی بلکہ پوری دنیا کی لیکن جہاں کچھ اچھے لوگ ہوتے ہیں تو وہاں کچھ برے بھی ہوتے ہیں جنہوں نے یہ ساری ٹینشن پیدا کر دی‘۔

    سکندر صنم نے بتایا کہ بھارتی ٹی وی چینلز کے ساتھ ان کے کنٹریکٹس (معاہدے) اب بھی برقرار ہیں اور جس دن حالات صحیح ہوجائیں گے وہ ان ٹی وی چینلز کے لئے دوبارہ کام شروع کردیں گے۔’آرٹسٹ کے لئے تو میرے خیال میں کوئی سرحد نہیں ہوتی، ہر جگہ وہ پرفارم کرے گا اور انشاء اللہ ہم دوبارہ جائیں گے اور پھر پاکستان کا نام روشن کریں گے‘۔

    شکیل صدیقی اور سکندر صنم کی طرح ولی شیخ سے بات ہوئی تو ایسا لگا کہ جیسے وہ اب تک بھارت سے جڑی یادوں کے سحر میں ہیں۔’وہاں کے لوگ اتنے پیار کرنے والے ہیں کہ ہمیں وہاں محسوس ہی نہیں ہوتا کہ ہم انڈیا میں ہیں، ایسا لگتا ہے جیسے ہم پاکستان میں ہیں اور بہت اچھی آڈیئنس ہے وہاں کی، پتہ لگتا ہے کہ یار ہم لوگ بہت اچھے لوگوں میں آئے ہیں اور وہ لوگ آرٹسٹ کو آرٹسٹ بناکر رکھتے ہیں، بہت پیار کرتے ہیں‘۔

    شکیل صدیقی کا یہ بھی کہنا ہے کہ ’دیکھیے جی ہم تو وہاں پل کا کام کررہے تھے اور میں تو کہتا ہوں کہ آرٹسٹ اور کھلاڑی ہی پل کا کام کرسکتے ہیں دونوں ملکوں کے لئے۔ اور دوستیاں اتنی جلدی ختم نہیں ہوتیں میرا ماننا ہے کہ اگر آٹھ سال بعد دوستی ہوئی تھی تو اتنی جلدی ختم نہیں ہوسکتی‘۔ انہوں نے بتایا کہ کراچی واپسی کے بعد انہوں نے دوبارہ سے سٹیج ڈرامے شروع کر دیے ہیں اور بعض پاکستانی ٹی وی چینلز نے بھارتی طرز کے پروگرام بھی شروع کیے ہیں جن میں پرفارم کرنے پر انہیں معاوضہ بھی اچھا مل جاتا ہے۔

    لیکن ایک بات ان کے دل میں پھانس بن اٹکی ہوئی ہے اور وہ یہ کہ ’انڈیا والوں کو فن اور فنکاروں کی پہچان ہے۔ آپ دیکھیں کہ جب ہم واپس آئے ہیں تو یہاں کے ٹی وی چینلوں پر ہمیں کام ملا ہے۔ پاکستان میں دو چیزیں بہت عام ہیں۔ ایک پاکستانی کپڑے پر جاپانی مہر لگ جائے تو وہ دھڑا دھڑ بکتا ہے اور دوسرا پاکستانی آرٹسٹ پر انڈین مہر لگ جائے تو وہ بھی دھڑا دھڑ بکتا ہے۔ یہ بڑی بدنصیبی ہے ورنہ اب بھی کئی شکیل صدیقی، سکندر صنم، ولی شیخ ہیں یہاں پر جو وہاں نہیں گئے ہیں‘۔

    دونوں ملکوں میں اظہار رائے یعنی کھل کر اپنی بات کہنے کی آزادی کے معاملے پر بات ہوئی تو شکیل صدیقی نے کہا کہ بھارت میں اس کی زیادہ آزادی ہے۔ ’دیکھیں نا ہمارے فنکار نے ان کے ٹی وی چینل پر کھڑے ہوکر پاکستان زندہ باد کا نعرہ لگوادیا۔ آپ ہمارے یہاں اس بات کا تصور نہیں کرسکتے کہ کوئی یہاں ہندوستان زندہ باد کا نعرہ لگائے‘۔

    ایاز سموں نے شکیل صدیقی کا جملہ اچک لیا۔’آزادی اظہار کے معاملے میں انڈیا ہم سے دو ہاتھ آگے ہے۔ یہاں پر ہم کہہ تو سکتے ہیں کچھ بھی لیکن تنازعہ کھڑا ہونے میں وقت نہیں لگتا۔ انڈیا میں یہ ہے کہ آپ کی کسی بات پر کوئی تنازعہ پیدا ہوجائے تو آپ کو صفائی دینا کا موقع ضرور ملتا ہے جو کہ ہمارے یہاں نہیں ملتا‘۔ ایاز سموں کے بقول ’بھارت کے مقابلے میں پاکستان کا کلچر بھی مختلف ہے اور مذہب بھی۔ پھر سینسرشپ کا بھی مسئلہ ہے جس کی وجہ سے ہم یہاں پر اتنی کھلی بات نہیں کرسکتے۔بہت ساری چیزوں کو سنبھال کر کرنا پڑتا ہے انڈیا میں ایسا نہیں ہے‘۔‘۔

    اس سوال پر کہ پاکستان کے موجودہ حالات کو دیکھ کر کبھی انہیں ڈر نہیں لگتا کہ کہیں شدت پسند عناصر کل کو داڑھی مونڈنے، گانا بجانے اور سننے اور عورتوں کے بازار میں نکلنے کی طرح کامیڈی اور تھیٹر کو بھی حرام قرار دیدیں تو شکیل صدیقی کے پاس ترکی بہ ترکی جواب تھا۔ ’جیسا کام چل رہا ہے، چل رہا ہے، جب ایسا وقت آئے گا تو ہم بھی یہ کام چھوڑ دیں گے۔ بچوں کا پیٹ تو پالنا ہے تو کوئی اور کام کرلیں گے۔ لیکن میرے بھائی ہمارا کام ہنسانا ہے اور میں سمجھتا ہوں کہ دنیا کے تمام مذاہب یہی کہتے ہیں کہ ہنسنا بہت ضروری ہے۔ ٹھیک ہے نا۔ ہنسی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ آپ ہنستے ہوئے ہر آدمی کو دیکھیں گے کہ وہ ایک ہی طرح سے ہنستا ہے‘۔

    तुरंत पाएं न्यूज अपडेट
    Enable
    x
    Notification Settings X
    Time Settings
    Done
    Clear Notification X
    Do you want to clear all the notifications from your inbox?
    Settings X
    X